انصاف کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اندھا ہوتا ہے ان معنوں میں کہ انصاف کرتے ہوئے مجرم کی مجبوری، غریبی یا لاچاری کو خاطر میں نہیں لاتا ـ
صحیح معنوں میں یہ مقولہ یوں ہونا چاہئےکہ انصاف اندھا نہیں بلکہ انصاف دانا و بینا ہوتا ہے ـ کسی مجرم کو سزا دیتے ہوئے رحم کرے یا نہیں لیکن جرم کے اسباب اور ان کے سدِباب کی طرف انصاف کی نظر ضرور ہونی چاہئے ـ
کہا جاتا ہے کہ امریکہ یا انڈونیشیا کی عدالت میں ایک فاضل جج کے سامنے ایک بوڑھی عورت کا مقدمہ پیش کیا گیا کہ اس نے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے تھوڑے سے آلو چوری کرلئے تھے ـ اس بوڑھی نے بھی اپنے جرم کا اقرار کیا اور کہا کہ غریبی و لاچاری کے ہاتھوں بے بس ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا تھا، اس نے بتایا کہ اس کا بیٹا سخت بیمار تھا اور پوتا بھوک کی شدت سے جان کنی کے عالم میں تھا ــــ
پلانٹیشن کے مینیجر نے اس عورت کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا تاکہ آئندہ پھر کسی مزدور کو چوری کی جرأت نہ ہو ـ
جج نے پورے قضیے کا بھرپور قانونی جائزہ لے کر عورت سے نظر ملائی اور کہا کہ افسوس! میں قانون و انصاف کے معاملے میں کوئی استثنٰی نہیں کر سکتا ـ
بوڑھی پر 100 ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا اور عدم ادائیگی کی صورت میں ڈھائی سال
جیل کی سزا سنائی گئی ـ
سزا سن کر عورت دھاڑیں مار کر رونے لگی اور بلک بلک کر دہائی دینے لگی ـ
تبھی تاریخ کی اس فراموش کردہ روایت کے گمنام جج نے وہ قدم اٹھایا کہ ہر نظام انصاف میں یہ رویہ اپنایا جائے تو دنیا بھر میں جرم کی شرح پر کافی روک لگ جائے ـ
جج نے اس بوڑھی کے سر پر رکھی ہوئی ہیٹ اتروالی اور اپنی جیب سے 10 ڈالر نکال کر اس میں ڈال دئیے اور حاضرین ِ عدالت کو حکم دیا کہ ہر شخص اس میں ساڑھے پانچ ڈالر ڈال دے ـــ
جج نے کہا "میں انصاف کے نام پر یہاں موجود ہر شخص پر ساڑھے پانچ، ساڑھے پانچ ڈالر کا جرمانہ عائد کرتا ہوں جو اس شہر کا رہنے والا ہے ــــــــــ کیونکہ ان لوگوں نے ایک بچے کو بھوک سے مرجانے کے اس حال تک پہنچا دیا کہ اس کی دادی کو مجبوراً چوری کرنی پڑی ـ "
وہاں پر موجود لوگوں سے بطورِ جرمانہ 350 ڈالر کی رقم وصول کی گئی، اس رقم میں سے جرمانہ وصول کیا گیا اور باقی رقم بوڑھی کو سونپ دی گئی ـ
کیا غضب کا انصاف ہے ـ
چھوٹے چھوٹے جرائم کی سزا دیتے ہوئے نظام انصاف کے علمبرداروں کو بڑے جرائم کی بیخ کنی کا خیال تک نہیں آتا ......... اور نہ ہی دہشت گردی کے نام پر بے قصور مجبوروں کوملوث کرتے ہوئے ان بڑے مجرموں کا نوٹس لیا جاتا ہے جو اصل فساد کی جڑ ہوتے ہیں ـ(جوہر)